یمنا نگر / ۲۴نومبر۔ جمعیت علماءہند ایک سوچھ سال سے قائم ہے اور پہلے دن سے اب تک اس ملک کے لوگوں کی بھلائی اور ترقی اور ملک کی بقا و سالمیت کے لیے کوششیں کرتی آ رہی ہے، ہم اس ملک میں گزشتہ تیرہ سو سال سے پیار و محبت سے رہتے چلے آرہے ہیں، جو لوگ تاریخ کو جانتے ہیں تو انہیں معلوم ہے کہ ہم یہاں ہر برادری اور طبقہ میں ہر گاؤں و شہر میں صدیوں سے ایک دوسرے کے دکھ درد
کے برابر کے شریک ہیں، ہمیں ایک دوسرے کا مذہب آپسی پیار و محبت سے نہیں روکتا ہے، یہاں آج آپ کا اس خطہ میں جمع ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہاں سب لوگ مشتر کہ تعاؤن سے زندگی گزارتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مولانا سید ارشد مدنی نے جمعیت علماءمتحدہ پنجاب کے بینر تلے اصلاح معاشرہ کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا مذہب ہمیں اسی پیار و محبت کی تلقین کرتا ہے، ہمیں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے وقت مذہب کی قید سے قرآن کی تعلیمات نے آزاد کیا ہے ، ہمیں آج کہا جاتا ہے کہ مسلمان غیر مسلم کو جینے کا حق نہیں دیتا جبکہ قرآنی تعلیمات اس کے برعکس ہیں، جو ہمیں عدل و انصاف کا تقاضا کرتی ہیں، ہر انسان ایک دوسرے انسان کا بھائی ہے ، جب ملو ہنس کر ملو خوشی کے ساتھ ملو، چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ ملو، یہ عمل اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرنے والا عمل ہے، راستہ کسی کو صحیح بتا دینا ان کی رہنمائی کر دینا اور تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا اللہ کا غضب اس پر بھی ٹھنڈا ہوتا ہے ، ایسی بنیادی تعلیمات کی طرف متوجہ کرنے والا مذہب بھلا کہاں دہشت گردی کی اجازت دے سکتا ہے۔مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ معیت علمائے ہند نے کیرالا سیلاب میں بغیر کسی مذہبی تفریق کے سب کے مکانات تعمیر کرائے، بنگال میں زمینداروں کو مسائل کا سامنا ہوا اوہاں بھی امداد پہنچائی، اسی طرح ابھی حال ہی میں پنجاب، ہماچل ، جموں و کشمیر کے لوگوں کی بڑے پیمانے پر آپ لوگوں نے مدد پہنچائی، یہ ہماری اور آپ کی اور اسلام کی تصویر ہے ، یہ جمعیت علماءکا کام ہے، آپ اپنی اس پرانی تصویر کو منظم کیجئے ، پیار و محبت کے اس چراغ کو بجھنے نہ دینا، فرقہ پرست طاقتیں اور وہ ذہنیت اس کام کو پسند نہیں کرتی ہیں، اپنی زندگی کو بہترین زندگی بنائیں ، مذہب کی بنیاد پر لوگوں سے اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والے اس ملک کے امن کے دشمن ہیں، یہ طاقت اور کرسیاں آنی جانی ہیں، مگر اسلام قیامت آنے تک کے لیے ہے، یہ پیغام ابدی ہے اس کے پیرو کار غلط کام نہیں کر سکتے۔
