مالیگاؤں/ یکم دسمبر 2015ء—یہ وہ تاریخ ہے جب روزنامہ اخبار کے بانی اور شہر کی صحافتی دنیا کا روشن چراغ، جناب عبدالرشید قادری، اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی جدائی کو دس برس گزر چکے ہیں، مگر آج بھی اُن کی یادیں، خدمات اور صحافتی وراثت اسی تازگی کے ساتھ دلوں میں زندہ ہیں۔اُن کے انتقال کی خبر نہ صرف مالیگاؤں بلکہ ریاست کی سطح پر شائع ہونے والے تمام معزز اخبارات کی زینت بنی۔ مجھے آج بھی انقلاب کے معروف صحافی مختار عدیل کے وہ جملے یاد ہیں جب انہوں نے مرحوم رشید قادری کو ”صحافت کی یونیورسٹی“ قرار دیا تھا۔ یہ محض ایک تعریفی جملہ نہ تھا، بلکہ ایک ایسی حقیقت تھی جسے شہر کے ہر صحافی اور قلمکار نے محسوس بھی کیا اور تسلیم بھی۔ مرحوم نے درجنوں نویسندگان اور نو آموز صحافیوں کو میدانِ صحافت میں متعارف کرایا اور رہنمائی کے ان چراغوں کو روشن کیا جو آج مختلف اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔میں نے بھی انہیں صرف ایک سرپرست یا اخبار کے بانی کی حیثیت سے نہیں پایا بلکہ ایک شفیق باپ اور دردمند استاد کی طرح قریب سے محسوس کیا۔ اُن کی کمی آج بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
مرحوم کے انتقال کے فوراً بعد اُردو میڈیا سینٹر میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا، جہاں اُن کے صاحبزادے احمد سفیان نے بڑے پرعزم لہجے میں کہا تھا:”روزنامہ اُسی آن بان اور شان کے ساتھ شائع ہوگا جس طرح ماضی میں تھا۔“
واقعی یہ محض ایک اعلان نہ تھا بلکہ ایک وعدہ تھا، جو آج ایک خوبصورت حقیقت کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ رشید قادری کے نظریات، افکار اور صحافتی اصولوں کی روشنی میں آج بھی روزنامہ پوری کامیابی کے ساتھ پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس ہنگامہ خیز دور میں جب بڑے بڑے اخبارات خسارے کا شکار ہیں، وہاں ہمارے قارئین، مشتہرین، قلمکاروں اور نامہ نگاروں کی محبت و اعتماد نے اس روزنامہ کو ہمیشہ سرخرو رکھا ہے۔ آج یہ اخبار اپنے 30ویں سالِ تاسیس کے قریب ہے اور اُسی وقار کے ساتھ اپنی صحافتی خدمت انجام دے رہا ہے۔
بہرحال سیّد زاہد سیّد لعل کی سرپرستی، انتظامیہ کی مستعدی اور ہماری محنتی ہاکرس ٹیم کی انتھک کوششوں نے اس اخبار کو شہر کے ہر گوشے تک پہنچانے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ فجر کی اوّلین ساعتوں میں جب شہر خاموش ہوتا ہے، ہمارے درجن بھر ہاکرس پوری ذمہ داری اور محبت کے ساتھ قارئین تک اخبار پہنچاتے ہیں۔ یہی وہ خاموش خدمت ہے جو اس ادارے کی کامیابی کا اصل سرمایہ ہے۔
رشید قادری کی شخصیت اور اُن کا چھوڑا ہوا ورثہ صرف ایک اخبار نہیں بلکہ ایک عہد کی علامت ہے۔ اُن کی جدائی کے دس برس بعد بھی اُن کا نام احترام سے لیا جاتا ہے، اور اُن کے نقشِ قدم آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ یہ اخبار اُن ہی کی محنت، صداقت، اصول پسندی اور اخلاص کی روشن روایت کا تسلسل ہے، جو آنے والی نسلوں تک پہنچتا رہے گا۔ (ایڈیٹر)
