انسان کسی بھی شخص شئے یا مقام کے تعلق سے انہیں لوگوں کی باتیں قابلِ قبول سمجھتا ہے جو اس شخص، شئے یا مقام سے قریب رہے ہوں. البتہ ان کے قریب رہنے والوں کی باتوں کے حوالے سے راقم الحروف نے سعادت حسن منٹو کے تعلق سے لکھے گئے اس مضمون میں کرشن چندر، احمد شجاع پاشا، باری علیگ، شورش کاشمیری، ممتاز مفتی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریہ، تحسینفراقی، سید وقار عظیم، شاہدہ ناز، سجاد ظہیر، شمیم حنفی، سید فراز احمد، حمید اختر، کنہیا لال کپور، یوسف ظفر اور یونس جاوید وغیرہ کی باتوں میں بہت ہی کم بلکہ نہیں کے برابر ترمیم و اضافہ کرکے انہیں پیش کیا ہےاور حقیقت تو یہ ہے کہ راقم الحروف نے اس مضمون میں صرف اور صرف لفظوں کے موتی ایک دھاگے میں پرونے کا کام کیا ہے. وہ بھی اس احساس کے ساتھ کہ موتی بہرحال دوسروں کے ہی ہیں. البتہ ان موتیوں کی مدد سے اردو کے افسانوی ادب کے ایک عظیم فنکار سعادت حسن منٹو کو ۔خراجِ عقیدت پیش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے.۔
لانبا، ترچھا، چپٹا، گورا گورا، ہاتھ کی پشت پروریدیں ابھری ہوئیں. گردن کا حلقوم باہر نکلا ہوا، سوکھی ٹانگوں پر بڑے بڑے پاؤں لیکن بے ڈول نہیں. ایک عجیب سی نفاست، نسائیت لئے ہوئے، چہرے پر جھنجھلاہٹ، آواز میں بے چینی لکھنے میں اضطراب، آداب میں تلخی، چلنے میں عجلت. سعادت حسن منٹو کو پہلی بار دے کر ان ہی باتوں کا احساس ہوتا تھا. (کرشن چند)
……………………………………………………………………………………….
اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھاجیسے یرقان میں مبتلا ہے.(کنہیا لال کپور) منٹو کا ماتھا سیمیں پردے کی طرح مستطیل تھا. نیچے سے کم فراخ اور اوپر سے زیادہ، بال سیدھے، لمبے اور گھنے تھے. آنکھوں میں ایک وحشی چمک، ایک بے باک درشتی، ایک ایسی سوجھ بوجھ تھی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے منٹو موت کے دروازے کے اندر جا کر لوٹ آیا ہو. (کرشن چندر)
سعادت حسن منٹو (11 مئی) 1912ء میں ضلع لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا. وہ امرتسر کے ایک انتہائی معزز کشمیری خاندان کا رکن تھا. وہ لوگ اپنی ذہانت کے لیے دور دور مشہور تھے(احمد شجاع پاشا)
منٹو نے مقامی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے علیگڑھ کا رخ کیا مگر جلد ہی اسے وہاں سے رخصت ہونا پڑا(احمد شجاع پاشا)
سعادت حسن منٹو کے والد منصف تھے. انہوں نے دو شادیاں کی تھیں. سعادت کی والدہ ان کی دوسری بیوی تھی. انہوں نے اپنی پہلی اہلیہ کی اولاد کی تعلیم و تربیت پر اتنی توجہ کی کہ ان کی وفات کے بعد چھوٹی بیگم اور ان کی اولاد سعادت اور اس کی بڑی بہن ناصرہ اقبال کے لیے تلخ یادوں کے سوا اور کچھ باقی نہ بچا. (ابوسعید قریشی)
منٹو اپنے بزرگوں کی عزت کرتا تھا، ان سے محبت نہیں. اس کے آداب میں، اخلاق میں زاویہ ء نگاہ میں اس قدر شدید اختلاف تھا کہ اس نے بچپن ہی سے اپنا گھر چھوڑ دیا تھا اور اپنے لئے نئی راہ کی تلاش شروع کر دی تھی. علی گڑھ، لاہور، امرتسر، بمبئی، دہلی ان مقامات نے منٹو کے مختلف رنگ دیکھے ہیں. روسی ادب کا پرستار منٹو، چینی ادب کا شیدا منٹو، تلخی اور یاسیت کا شکار منٹو، گمنام منٹو، بھٹیار خانوں، شراب خانوں اور قحبہ خانے میں جانے والا منٹو اور پھر گھریلو منٹو، محبت کرنے والا منٹو، دوستوں کی مدد کرنے والا منٹو، ترشی اور تلخی کو مٹھاس میں سمونے والا منٹو، اردو کا معروف ترینمنٹو (کرشن چندر)
باری علیگ نے منٹو کو ایک فلم دیکھنے پر آمادہ کیا اور واپسی پر اس فلم پر تبصرہ لکھنے کی شرط رکھی. دوسرے روز "مساوات” میں جو چند سطریں منٹو کی شائع ہوئیں اس سے وہ بہت خوش ہوا اور ان سطروں کی اشاعت نے ہی سعادت حسن کے اندر چھپے ہوئے افسانہ نگار منٹو کو بیدار کیا. (باری علیگ) اور شاید منٹو وہ پہلا ادیب تھا جو فلم اسے ادب کی طرف آیا اور اپنی شہرت کی بنیادیں استوار کرکے پھر فلم کی طرف چلا گیا. (کرشن چندر) بمبئی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے منٹو کی صلاحیتوں کو جلا بخشی. وہ بمبئی میں ایک عام ہفتہ وار پرچے کے مدیر کی حیثیت سے داخل ہوا اور جب وہاں سے باہر نکلا تو ایک مشہور آدمی تھا. (احمد شجاع پاشا)
وہ ایک کاغذ لیتا اور اپنے قلم سے 786 لکھ کر افسانہ لکھنا شروع کر دیتا. نہ اس نے کبھی اپنے کرداروں کے متعلق سوچا اور نہ نقطہ ء عروج کے متعلق. پہلا جملہ لکھنے کے بعد اس کے قلم میں روانی پیدا ہوجاتی. اس کی آنکھیں متبسم ہوجاتیں اور وہ لکھتے چلا جاتا. لکھنے سے پہلے اسے خود بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا لکھنے والا ہے اور فقرہ لکھ کر منٹو نے کبھی اسے کاٹا نہ تھا. (ممتاز مفتی) اس کاقلم مشین کی طرح چلنے لگتا. آدھے گھنٹے کے اندر اندر کہانی ختم کرکے وہ جھپاک سے ایڈیٹر کے سپرد کردیتا. وہ اپنی تحریر پر نظرِ ثانی کرنے کا عادی نہیں تھا. ایک ہاتھ سے کہانی ایڈیٹر کے حوالے کرتا اور دوسرا ہاتھ نقدی وصول کرنے کے لئے آگے بڑھا دیتا. رقم گننا اس نے کبھی گوارہ نہ کیا. اسے وہ گھٹیا اور ذلیل حرکت خیال کرتا تھا. اس دور میں اس کا 30 روپے روز کا خرچ تھا. جب تک پورا جمع نہ کر لیتا چین نہ پڑتا. اس کی ضرورت نے اسے زودنویس بنا ڈالا تھا. اس نے ایک ایک نشست میں طویل سے طویل افسانہ ہی ختم نہیں کیا بلکہ بسا اوقات ایک ہی نشست میں کی افسانوں کا مجموعہ لکھ ڈالا. اس کا اصول تھا کہ پہلے علیحدہ علیحدہ قیمت پر افسانے بیچتا. پھر کسی ناشر کے پاس مجموعہ بھیجتا اور اس طرح ایک معقول رقم پیدا کر لیتا لیکن جو کچھ کماتا اس کا بہت بڑا حصہ شراب کی بھینٹ چڑھ جاتا.
منٹو نے خود 1951ء میں لکھا تھا کہ وہ فیشن نویس، دہشت پسند، سنکی، لطیفہ باز اور رجعت پسند سہی لیکن ایک بیوی کا خاوند اور تین بچیوں کا باپ بھی تھا. ان میں سے اگر کوئی بیمار ہوجاتا اور موزوں و مناسب علاج کے لیے اسے درد کے در کی بھیک مانگنی پڑتی تو اسے بہت کوفت ہوتی. اس کے دوست بھی تھے جو اس سے زیادہ مفلوق الحال تھے. بروقت اگر وہ ان کی مدد نہ کر سکتا تو اسے بہت تکلیف ہوتی. دنیوی معاملات میں اگر وہ کسی کا یا خود اپنا سر جھکا ہوا دیکھتا تو اسے بہت دکھ ہوتا.
منٹو کے دوستوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ اس کی زندگی ایک مستقل عذاب تھی اور موت نے اس کو اس عذاب سے نجات دلادی لیکن وہ زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتا تھا اور اس نے شجرِ ممنوعہ کے ہر گوشے سے زندگی کا رس نچوڑ تھا.
اس کی تحریریں دنیا جہاں کی گندگیوں سے آلودہ ہوتی تھی لیکن وہ خود ایک صاف ستھرا آدمی تھا. اس کی عادتیں بڑی پاک صاف تھیں. (احمد شجاع پاشا) صفائی، باقاعدگی اور عمدگی اس کے مزاج کا خاصہ تھیں. وہ لاابالی پن، پھوہڑپن جو اکثر ادیبوں کے گھروں میں ملتا ہے منٹو کے ہاں نہیں تھا. منٹو کے گھر میں کوئی بات ٹیڑھی نہیں تھی. صرف اس کی سوچ ٹیڑھی تھی مگر اس میں بھی ایک واضح ترکیب تھی.(کرشن چندر)
مختصر اردو افسانے میں تقلیل اور اختصار کے عمل کا آغاز منٹو سے ہوتا ہے. (انیس ناگی) اس کے افسانوں کے رنگ عجیب ہوتے تھے. ان کی تراش نرالی ہوتی تھی. اس کے استعارے اچھوتے ہوتے تھے. ان میں شعریت اور شفقی اوصاف نہیں ہوتے تھے. وہ ادب میں حسن نہیں اقلیدس کا قائل تھا. ہر چیز نپی تلی رکھتا تھا. وہ اپنے استعاروں کے مفہوم، تاثر اور حدود اربعہ سے بخوبی واقف تھا اور لاشعوری حسن سے نہیں، ایک متعین ترتیب اور جیومیٹری کی اشکال سے تاثر پیدا کرنا چاہتا تھا اور اکثر رومانیت پسندوں سے کہیں زیادہ کامیاب رہتا تھا. (کرشن چندر)
اس کی بیشتر تخلیقات عظیم بشریت کے نصب العین پر پوری اترتی تھیں اور اپنی سادگی اور سچائی اور تلخی کے اندر ایک شعری حُسن کی نمو رکھتی تھیں جس کے حصول کے لئے انسان کا سینہ آج تک ترس رہا ہے. (کرشن چندر)
خاص طور پر جنسیات کے مسئلے پر جس بیباکانہ انداز میں منٹو نے قلم اٹھایا تھا، ہمارے ادب میں اور ہندی ادب میں اور مراٹھی، گجراتی، بنگالی زبان کے تراجم میں اور دوسری زبان میں بھی اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے. منٹو نے پہلے تو شرم اور شرم کے خول اکھاڑے ہیں پھر غلاظت کو صاف کیا ہے اور پھر اصل موضوع کو صابن سے دھو کر اتنا چمکایا کہ آج ہم میں سے ہر شخص جنس کی اہمیت، اس کی پیچیدگیوں، اس کے گوناگوں تاثرات سے بخوبی واقف نظر آتا ہے. اس جنسی تعلیم کے لیے ہم بڑی حد تک منٹو کے معترف ہیں. یہ تعلیم اس نے اپنی جوانی اور اپنی صحت کو خطرہ میں ڈال کردی ہے. (کرشن چندر)
سچائی کی تلاش میں وہ کیچڑ کے اندر گٹھنوں گٹھنوں تک دھنس گیا. اس کے کپڑے ضرور آلودہ ہو گئے لیکن اس کی روح کبھی میلی نہیں ہوئی اس کے افسانوں کے اندر چھپا چھپا کرب اس کا گواہ ہے. وہ عورت کی عزت کا، اس کی عصمت کا اور اس کے گھریلو پن کا جس قدر قائل تھا کوئی دوسرا مشکل سے ہوتا. اس لیے جب وہ عورتکی عزت کو جاتے ہوئے دیکھتا، اسے اپنا ناموس کھوتے ہوئے دیکھتا، اس کے گھریلو پن کو مٹتے ہوئے دیکھتا تو وہ بے قرار ہو جاتا اور بے تاب ہو کر جاننا چاہتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور جب وہ ہر بار اپنے مشاہدے کو بروئے کار لا کر ایک ہی تسلسل کو، ایک ہی ترتیب کو، سماج کے ایک ہی نظام کو دیکھتا تو وہ غصے میں آکر اسے تھپڑ مارنا چاہتا. منٹو اپیل کا قائل نہیں تھا. وہ ڈرانے اور تھپڑ مارنے کا قائل تھا. اس کے ہر افسانے کے آخر میں ایک طمانچہ ہوتا تھا جو پڑھنے والے کے منہ پر اس طرح پڑتا تھا کہ قاری بھنّا کر رہ جاتا تھا اور منٹو کو صلواتیں سنانا لگتا تھا مگر منٹو اس طمانچے سے کبھی باز نہیں آیا جسے بہت سے نقاد منٹو کی اذیت پسندی کہتے تھے. اس کی وہ اذیت پسندی، اذیت پسندی نہیں بلکہ اس کی زخمی انسانیت کی ایک بدلی ہوئی صورت تھی اور یہی چیز آپ کو منٹو کے اطوار وگفتار، اس کی تخلیقات، اس کے قول و فعل میں ہر جگہ دکھائی دے گی. (کرشن چندر)
وہ معاشرے کے ابنارمل کرداروں کو خصوصی طور پر قابلِ توجہ سمجھتا تھا. ان کی ذہنی اور نفسیاتی کمزوریوں کو ہمدردانہ انداز میں دیکھتا تھا اور انہیں مجرم سمجھنے کی بجائے ان کی انسانیت کو واضح کرنے کی کوشش کرتا تھا. (ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا) وہ ہمارے ان افسانہ نگاروں میں سے تھا جنہوں نے اردو افسانوں کو رومانیت کی دھند سے نکالا اور اسے حقیقت نگاری بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بے رحم حقیقت نگاری کے عنصر سے باثروت کیا. (تحسین فراقی)
منٹو اپنے افسانوں میں سیدھے سادے، روزمرہ کے بول چال کے جملوں سے ایسی مثال اور تشبیہ سے، جو دوسروں کی نظر میں بالکل حقیر اور بے حیثیت تھیں، اور ایسے چلتے ہوئے فقروں سے جن میں سنجیدگی اور متانت کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا، گہری سے گہری، سنجیدہ سے سنجیدہ اور مؤثر سے مؤثر بات کہنے کا کام لیتا تھا. (سید وقار عظیم)
منٹو اپنے طرز احساس کے اعتبار سے ایک ارتقائی نقطہ ء نظر کا حامی تھا اس لیے اس نے انسان، جنس اور سماج کی تثلیث کو اپنی تحریروں کا محور بنایا. لہذا اس نے جہاں جنسی حقیقت نگاری اور سیاسی ابتری کی المناک منظر نگاری کی وہاں انسانی نفسیات کا بھرپور مطالعہ کرکے اس کے اندر کی خلا کو بھی پر کرنے کی کوشش کی.
کلرک، مزدور، طوائف، رندِخرابات، زاہدِ پاکباز، کشمیر یا بمبئی، دہلی، لاہور، فلم اسٹوڈیو، کالج، بازار، گھر، ہوٹل، چائے خانے، بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں، مرد اور ان سب کی ذہنی الجھنیں اور ان ساری چیزوں سے بڑھ کر جنس اور اس کے گوناگوں مظاہر منٹو کے موضوعات تھے. (سید وقار عظیم)
منٹو کی تحریریں بے حد شور مچاتی تھیں. اس کی نثر پڑھ کر یوں لگتا تھا جیسے کوئی سازندہ اکارڈین رکھ کر کنستر بجا رہا ہو. منٹو اپنے تحریروں میں شدتِ احساس پیدا کرنے کے معاملے میں اور ہوگیا تھا. ہم عصر افسانہ نگاروں سے زیادہ نمایاں ہونے کے جنون میں اس نے لفظوں کی جگہ گالیاں برت ڈالی تھیں.(شاہدہ ناز) اس کے چند افسانے ہمارے ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے بعض افسانے خراب ہیں. (سجاد ظہیر) دنیا کی ہر چیز کی طرح منٹو نہ اچھا ہے اور نہ محض برا. (سید وقار عظیم)
بحیثیت افسانہ نگار منٹو کے وژن کا سب سے اہم پہلو یہی تھا کہ کہانی کےڈھانچے کی تعمیر میں سب کام کرنے والے کسی مذہب یا اس کی بنیاد میں شامل کسی بھی لفظ پر وہ اپنی ذات کو مسلط نہیں کرتا تھا. ہر شئے، ہر اسم، تصویر کے ہر نقطے اور ہر لکیر کی اپنی حیثیت کا تعین وہ اس طور پر کرتا تھا کہ اس کی اپنی شخصیت کبھی ان پر غالب نہیں آتی تھی. (شمیم حنفی)
وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتا تھا اس کا کسی تکلف یا تمہید کے بغیر فوراً آغاز کر دیتا تھا. وہ سادہ گو اور سادہ بیان تھا لیکن اس کے ہاں کہانی کا مرکزی کردار اتنا جاندار، اتنا پرتاثیراور سچا ہوتا تھا کہ قاری کہانی کے بہاؤ کے ساتھ بہنے پر مجبور ہو جاتا تھا. (سید سرفراز احمد)
وہ عظیم افسانہ نگار تھا. فنِ افسانہ نگاری کے تمام اسرار و رموز پر اس کی پوری پوری گرفت تھی. اسے افسانے کی ایک ایک سطر پر بھرپور داد ملتی تھی. سامعین اس کا افسانہ سن کر واہ واہ کی صدائیں بے ساختہ بلند کرتے تھے. جس طرح مقبول شاعر مشاعروں کو اپنی شاعری سے لوٹ لیتے ہیں اس طرح منٹو بھی افسانہ سنا کر ادبی نشست کو لوٹ لیا کرتا تھا. اس جیسا افسانہ نگار اردو زبان کو شاید ہی اب نصیب ہو. (حبیب جالب)
لوگ کہتے ہیں منٹو شراب بہت پیتا تھا لیکن میں اسے تسلیم نہیں کرتا. میں اس منٹو کو جانتا تو ضرور ہوں جو شراب پیتا تھا لیکن مجھے اس منھ پھٹ، بے لگام اور انا پرست، بے لحاظ منٹو کے پیچھے جو شراب پیتا تھا، اصلی منٹو بھی نظر آتا تھا جو انتہائی کمزور، انتہائی نرم و نازک جذبات سے معمور نظر آتا تھا. اس منٹو کو بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن جو اس کو جانتے تھے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ منٹو کی اصل صورت ہی یہ تھی. اس کی بیباکی، بے لگامی اور اکھڑ پن اسی چیز کی بازگشت تھی. جن لوگوں نے اسے بہت قریب سے دیکھا تھا انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو محض چھلا چھلایا، نرم و نازک اور بالکل بے بس و بے کس آدمی نظر آتا تھا. (حمید اختر)
وہ طبعی موت نہیں مرا. اسے مار ڈالا گیا اور اسے مارنے والوں میں سب سے بڑا ہاتھ اس کے دوستوں کا تھا. اچھے اور برے دونوں قسم کے دوستوں کا. برے دوستوں نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی دشمنی کے لیے اسے مل کر برباد کرتے رہے اور اچھے دوستوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرکے مارڈالا. (حمید اختر)
18 جنوری 1955 کو منٹو انتقال کر گیا ہے اور اسے میانی صاحب قبرستان میں دفن کردیا گیا. (یوسف ظفر) جی چاہتا ہے وہ کچھ اور جی لیتا. اسے کہانی کی ضرورت نہ سہی مگر کہانی کو اس کی ضرورت تھی. (یونس جاوید)
Post Views: 124
پوسٹ کو اپنے احباب میں شیئر کریں